مضا مین


مضا  مین 
Hotspot Policing  (Geo-tagging)

تعارف:۔    خیبر پختونخواہ پولیس نے مرکزی جرائم کے معلومات اور تجزیہ کا نظام متعارف کیا ہے جو کہ Hotspot Policing   کے نام سے لانچ کیا گیا ہے یہ نظام جیو ٹیگینگ نظام پر مشتمل ہے جس میں ملزمان اور دہشت گردوں کے جملہ کوائف، تصاویر،نقشہ موقع طول بلد اور عرض بلد کے ساتھ ساتھ وقوعہ کے تفصیل مرکزی ڈیٹا بیس میں android موبائیل کے پہنچاتے ہیں۔ جب کوئی ریکارڈ کی تصویر مرکزی سرور کو مرتب کئے جاتے ہیں تو وہ خود بخود گوگل نقشہ پر ظاہر ہوجاتا ہے جس سے صونے کے تمام نقشہ موقع جیوٹیگ کئے جاتے ہے۔ اور یہ نظام مختلف زایوں سے تجزیہ کرکے مختلف طریقوں سے جرائم کا موازنہ کرتے ہیں۔ اس نئے نظام سے پولیس کو جرائم کے تفتیش میں کافی مدد ملتی ہے۔ اور ملزمان اور دہشت گردوں تک رسائی میں بھی مدد ملتا ہے۔ اسکے علاوہ اس نظام کے ذریعے سے کسی وقوعہ کا صحیح وقت اور جگہ کا تعین بھی کیا جاسکتا ہے۔
جس کے ذریعے صونے کے کسی بھی پولیس سٹیشن میں کوئی FIR  درج کی جاتی ہے تو اس کو اپنے پولیس سٹیشن سے انٹرنٹ کے ذریعے اس مرکزی ڈیٹا بیس میں بھیج دی جاتی ہے۔ اس نظام کے تحت اب تک تقریبا َ نولاکھ سے زائد FIRدرج کی جاچکی ہیں۔ اس تمام ریکارڈ کو استعمال میں لائے ہوئے ایک DRVS  کا نظام متعارف کیا گیا ہے۔



انسداد جرائم میں کمیونٹی کا کردار

امن عامہ کا اصلی اور لازمی انحصار کمیونٹی کے ہر فرد کی اس ذمہ داری پر ہے کہ وہ قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے انسداد جرائم کرے اور مجرمان کو گرفتار کرے۔ مجسٹریتوں اور پولیس کی تنظیم اس لئے قائم کی گئی ہے کہ وہ اس عام ذمہ داری کو نافذالعمل کرے۔ اس پر کنٹرول کرے اور اس کی مدد کرے تمام پولیس افسران کو چاہئے کہ ہر ایک پابند قانون شخص ہر ایک پولیس افسر کو خواہ کسی عہدہ کا ہو عقلمند، دانا، غیر جانبدار اور بے لاگ دوست اور محافظ جان ومال سمجھے۔ جوں جوں یہ معیار اس درجے تک پہنچتا جائے گا توں توں پولیس کو جرائم کا کامیابی کیساتھ مقابلہ کرنے کے لیئے مطلونہ انفارمیشن اور امداد ملے گی۔ جب باہمی اعتماد وتعاون میں کمہ ہو تو پرائیویٹ اشخاص اور دیہاتی اہلکار جرائم میں چشم پوشی کرتے ہیں اور مجرمان کے ساتھ عہدو پہمان کے ذریعہ اپنے نقصانات کی تلافی کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اس طرح پولیس کو جرائم کے انسداد  و سراغ رسانی میں تنہا بلا امداد کوشش کرنی پڑتی ہے اور ایسی حالت میں کم کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے پولیس اور پبلک کے مابین ایسا ہی تعلق مجموعہ ضابطہ فوجداری کے باب 4 میں بیان کیا گیا ہے۔ مجموعہ مذکور کی دفعات 45,44  کی رو سے معاشرے کے ہر ایک فرد کو پولیس کو بعض جرائم کی اطلاع دینے کا پابند بنایا گیا ہے۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ پولیس اور پبلک کے مابین تعاون وتعلقات از بس ضروری ہیں۔



Police Assistance Line (PAL)

تعارف:  ویسے بھی عوام اپنے جائیز مسائل کے سلسلے میں تھانہ کو آنے سے ہچکچاتے ہیں اور پولیس سٹیشن کو نہیں آتے ترقی یا فتہ ممالک میں مسلے کو حل کرنے کیلئے انہوں نے پولیس سٹیشن سے الگ پولیس اسسٹنز لائن قائم کی ہیں۔ لہذا ان کامیاب مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے محکمہ پولیس خیبر پختونخواہ نے بھی عوام کے لئے صوبہ بھر میں پولیس سٹیشن سے الگ پولیس اسسٹنز لائن قائم کی ہے جس کا مقصد عوام الناس کو مدد فراہم کرنا ہے اور اس نظام کے تحت مندرضہ زیل سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔
۱)             چوری کے رپورٹ کے اندراج میں
۲)            لاپتہ ہونے والے بچوں کے بارے میں
۳)            گمشدہ چیزوں کے بارے میں
۴)             بھتہ خوری کے رپورٹ کے اندراج
۵)            TIF  فارم اور کرایہ کے معاہدہ کے رپورٹ میں
۶)            پولیس گلیئرنس سرٹیفیکیٹ
۷)            پولیس کریکٹر سرٹیفیکیٹ
۸)            شناختی کارڈ کی تصدیق
۹)             گاڑیوں کی جانچ پڑتال اور کاغذات کی تصدیق  
۰۱)           قانونی مشورے
۱۱)            کاغذات ٹریفک اور ایکسائز کی تصدیق کے علاوہ عورتوں کے لئے علیحدہ کائنٹر قائم کئیں ہیں۔
طریقہ کار:۔   مندرجہ بالا سہولیات کیلئے PAL  میں علیحدہ ڈسک قائم ہے جو کہ ہفتہ کے سات دن دو شفٹوں میں کام کرتے ہے اور عوام الناس کو موقع پر شناختی کارڈ اور گاڑیوں کے جانچ اور دیگر سہولیات وقت کے ضیاع کئے بغیر فراہم کرتے ہیں۔



Police Access Service (PAS)

 تعارف:۔  پہلے سے بھی عام آدمی کیلئے پولیس تک رسائی ایک بڑا مسلہ تھا اور دہشت گردی نے اسے اور بھی مشکل بنادیا ایک طرف تو شکایا ت درج کرانے کا پرانا طریقہ کار پر کافی وقت ضائع ہوتا تھا اور دوسری طرف اس
سے انصاف کے بہت کم امید رکھی جاتی تھی لہذا محکمہ پولیس خیبر پختونخواہ نے اس مسلے کو حل کرنے کیلئے ایک نظام PAS   کے نام سے متعارف کرایا۔ جسکے ذریعے نہ صرف پولیس تک رسائی عام شہری کے لئے آسان ہوئی بلکہ عام شہری اپنے موبائل فون اور کمپیوٹر کے ذریعے گھر بیٹھے ایک ہی بٹن دبانے سے اپنے شکایت کو متعلقہ پولیس کو ارسال کرسکتے ہیں اس مقصد کیلئے محکمہ پولیس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال میں لائے ہوئے سنٹرل پولیس آفس میں جدید سہولیات سے آراستہ پولیس ایکسز لائن قائم کیا ہے جسکے ساتھ نہ صرف صوبہ خیبر پختونخواہ بلکہ دیگر صوبوں سے بھی موبائل فون نمبر 0315-907777  پر SMS ،  فیکس نمبر091-9223575   پر اور ای میل pas.kppolice@gmail.com   پر ای میل کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے اور اپنے شکایات کے متعلق پولیس تک آسانی سے رابطہ کرسکتے ہیں۔
طریقہ کار:۔  کوئی بھی شکایت PAS    کو موصول ہونے پر خود بخود PAS   کے ڈیٹا بیس میں درج ہوجاتا ہے اور اس شکایت کو باقاعدہ نمبر دیا جاتا ہے شکایت کنندہ کو خود کار نظام کے ذریعے اطلاع دی جاتی ہے شکایت پر مزید کاروائی کرتے ہوئے مذکورہ شکایت کو متعلقہ SDPO  ،   DPO   کو بغرض مزید کاروائی کیلئے خود کار نظام کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ جو 24  گھنٹے کے اندر اندر DPO,SDPO   کاروائی کرکے شکایت کنندہ سے رابطہ کرکے اپنے دفتر میں بلا کر اس کے شکایت سے متعلق جیسے بھی صورت ہو حل کرتے ہے اور اس کی اطلاع پاس PAS    کو دی جاتی ہے۔




  Dispute Resolution Councils (DRC)

تعارف:۔    جرگہ و پنچائت اس صوبے کے ثقافت کا صدیوں سے حصہ چلا آرہا ہے لہذا اسی ثقافتی ورثاء کو اپناتے ہوئے خیبر پختونخواہ پولیس نے ہر ضلع کے سطح پر DRC    علاقائی جرگہ متعارف کیا جس میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے عزت دار اچھے ممبران شہریت کے حامل رضاکار افراد جیسے کہ ریٹائرڈ جج صاحبان، ریٹائر ڈسول اور فوجی افسران، ڈاکٹر وکلاء صاحبان، مذہبی سکالر اور تجارت پیشہ افراد کو شامل کیا گیا ہے۔
طریقہ کار:۔   ضلع پولیس کے سربراہ اچھے شہریت کے حامل افراد کو DRC       ممبر کے حیثیت سے کام کرنے کا استدعا کریگا یا اگر کوئی شخص رضاکارانہ طور پر بحیثیتDRC  ممبر کام کرنے کیلئے اپنے آپ کو پیش کرے تو ضلع پولیس سربراہ تصدیق کرنے کے بعد اسے DRCممبر کے حیثیت سے کام کرنے کے اجازت
دیگا۔
ضابطہ اخلاق برئے DRC  ممبران:
 ۱۔             کوئی بھی ممبر اپنے ذاتی یا سیاسی مفادات کو فیصلہ پر اثر انداز نہیں کریگا۔
۲۔            کوئی بھی ممبر اپنے تعارفی کارڈ پر DRC  ممبر نہیں لکھے گا۔
۳۔            کوئی بھی DRC   ممبر کسی بھی ایسا تنازعہ کے حل میں بحیثیت DRCممبر نہیں بیٹھے گا جس تنازعات سے ویسے DRCممبر کا بلواسطہ یا بلا واسطہ مدعی یا مدعالیہ کے حیثیت سے تعلق ہو۔
۴۔            کوئی بھی ممبر جس پر مدعی یا مدع العہ عدم اعتماد کا تحریری درخواست دے۔
۵              اگر کوئی ممبر دفتر کو آتے ہئے کوئی سیایسی نشان لگائے گا تو ویسے ممبر کو نکالا جائیگا۔
سماعت کا اختیار:۔
DRC  ممبر کو مندرجہ زیل کیسوں میں تصفیہ کا اختیار نہیں ہوگا۔
۱۔             جو کیس کسی عدالت میں زیر سماعت ہوا۔ اس کیس کے سماعت کا اختیار نہیں ہوگا۔ جب تک کہ فریقین تحریری طور پر درخواست نہ دے۔
۲۔            ونی یا کم عمری کی شادی اور جرائم جو آئین پاکستان اور قانون نافزالوقت کے خلاف ہو سماعت کا اختیار نہیں ہوگا۔



Vehicle Verification System (VVS)

تعارف:۔    جرائم پیشہ افراد اور دہشت کرد جب کسی جرم میں گاڑی استعمال کرتے ہے تو وہ یا تو سرقہ شدہ ہوتی ہے اور یا اس پر جعلی نمبر پلیٹ لگاتے ہے تاکہ پولیس اس تک پہنچنے میں کامیات نہ ہو۔ گاڑیوں کی چوری ایک بڑا المیہ ہے کیونکہ چیک پوسٹوں پر ایسے گاڑیوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا جس کے ذریعے سے وہ مسروقہ گاڑی کی جانچ پڑتال بر وقت کرسکے۔ لہذا اس مسلے کو حل کرنے کیلئے محکمہ ایکسائز کے ریکارڈ پر موجودہ سرقہ شدہ گاڑیوں کی تفصیل تک رسائی کی گئی اور 400  کے قریب VVS   سمز صوبہ بھر میں مختلف چیک پوسٹوں پر تقسیم کئے گئے جس سے پولیس پوسٹ پر موجود اہلکار اس قابل ہوئے ہیں کہ موبائل فون کے ایک بٹن پر سرقہ شدہ اور جعلی نمبر پلیٹ والے گاڑیوں کی شناخت کرکے قبضہ میں لے سکتے ہیں۔
                جب کوئی اہلکار گاڑی کو چیک کرتا ہے تو وہ ریکارڈ خود بخود ڈیٹا بیس میں آجاتا ہے کہ فلاں وقت اور تاریخ میں فلاں پولیس اہلکار نے یہ گاڑی چیک کی ہے۔ اگر گاڑی چوری وغیرہ کی ہوتو کوئی بھی پولیس اہلکار اس کو چھپا نہیں سکتا۔
یہ سسٹم انتہائی کامیابی سے چل رہاہے اور اب تک سینگڑوں گاڑیاں اس کے ذریعے پکڑی جاچکی ہے۔



Identity Verification System (IVS)

تعارف:۔    جرائم پیشہ افراد اور دہشت گرد اپنا شناخت کو چھپانے کیلئے جعلی شناختی کارڈبنواتے ہے یا غیر قانونی تاریکین وطن جو دیگر جرائم میں ملوث ہوتے ہے جعلی کارڈ بنوانے کا سہارا لیتے ہے لہذا محکمہ پولیس نے نادرا کے ڈیٹابیس تک رسائی کیلئے استدعا کی جس کو اس نے تہہ دل سے منظور کیا اور محکمہ پولیس نے نادرا کے ساتھ بڑے مجرموں، مفروروں   اور جرائم پیشہ افراد کا ڈیٹا فراہم کیا ہے۔ اسکے علاوہ مدعی اور ملزم کی شناختی کارڈ کو رپورٹ پر لکھنے کو لاشمی قرار دیا ہے۔ تاکہ تفتیشی افسر کو ان تک رسائی میں آسانی ہو۔ ابھی چیک پوسٹ پر موجود ملازمان پرٹیبلٹ تقسیم ہوئے ہیں اور ایک بٹن کے ڈریعے ایسے مجرموں کے شناخت کرسکتاہے۔  یہ نظام جرائم کے روک تھام ملزمان کی گرفتاری اور تفتیشی افسران کو مدد فراہم کرتا ہے۔ اسکے علاہ اس نظام کے ذریعے غیر قانانی اجغان مہاجرین کے شناخت کی جاتی ہے۔ جائے وقوعہ  سے ملنے والے نشانات انگشت محفوظ کرکے اس نظام کے ذریعے نادرا سے تفتیش میں مدد لی جاسکتی ہے۔   ’اس نظام کے دو اہم کام ہیں۔
i۔             شناختی کارڈ کی تصدیق۔
ii۔           مجرموں، مفروروں اور جرائم پیشہ افراد کی نشاندہی۔


Tenant Information System (TIS)

تعارف:۔     "KP Restriction of Rented Building (security) Act 2014"   پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے محکمہ پولیس نے کرایہ داروں اور مکانات کے معلومات کیلئے مرکزی ڈیٹا بیس متعارف کیا ہے۔ جس میں جائیداد کے مالک، کرایہ داردو گواہوں اور پراپر ٹی ڈیلر کے متعلق معلومات اکٹھے کئے ہیں۔ مرکزی سرور (server)  سے صوبے کے تمام پولیس سٹیشن کو انٹر نٹ کے ذریعے جوڑا گیا ہے جوکرایہ دار اور جائیداد کے متعلق معلومات فراہم کرتے ہے۔ اس نظام کے ذریعے کوئی بھی شخص موبائیل اور کمپیوٹر کے ذریعے کرایہ داروں کے ریکارڈ کی پڑ تال کرسکتا ہے۔ کیونکہ کرایہ داروں کے ڈیٹا بیس کو مجرمان ڈیٹا بیس کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور جب بھی کوئی مالک اگر مکان کرایہ پر دے اور کرایہ دار کا نام مجرمان کے ڈیٹا بیس میں موجود ہوتو یہ نظام خود بخود متعلقہ تھانے کو اس مجرم کی موجودگی کی اطلاع دیتا ہے۔


Digitalization FIR & Crime Record Verification System (CRVS)

تعارف:۔       خیبر پختونخواہ پولیس نے صوبے کے تمام پولیس سٹیشن کے FIR  کے رپورٹ کیلئے ایک آن لائن مرکزی ڈیٹا بیس متعارف کیا ہے۔ جس کے ذریعے سے کوئی بھی بااختیار پولیس اہلکار موبائیل فون سے کسی بھی شخص کے شناختی کارڈ نمبر، نام، ولدیت اور سکونت سے FIR میں درج ملزم کا پتہ لگایا جاسکتاہے۔





خود آگاہی
Self Awareness

 خود آگاہی ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں ہم اپنی شخصیت، جذبات، احساسات، رویوں، خوبیوں اور حامیوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ واقف ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو جاننے اور اپنی شخصیت میں مثبت تبدیلی لانے کے حوالے سے خود آگاہی پہلا قدم ہے۔
                خود آگاہی ایک جاری رہنے والا سفر ہے کچھ لوگوں کیلئے یہ مشکل ہوسکتا ہے جبکہ کچھ کیلئے ااسان۔ یہ ہمیں اپنے رویوں، قدروں کا تجزیہ کرنے اور دوسروں کو جاننا اور قبول کرنا اتنا ہی آسان ہوتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں ہمیں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ بالکل ہماری طرح معاشرے کے دوسرے افراد میں بھی صلاحیتیں اور کمزروریاں ہیں۔ اس قدر مشترک کو محسوس کرکے اور آپس کے تفرقات کو قبول کرکے ہم ایک زیادہ ایماندار اور تحمل مزاج معاشرے کے قیام کی طرف قدم اٹھاتے ہیں۔
                 خود آگاہی ہمیں زندگی کے مقاصد کو مثبت انداز میں حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ جتنا زیادہ ہم اپنے بارے میں جانتے ہیں اتنا ہی بہتر طریقے سے ہم اپنے جذبات سے نمٹنے، اپنی خامیوں پر قابو پانے، دوسروں اور اپنے آپ کی بہتری کیلئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے قابل ہوتے ہیں۔
                رویوں میں تبدیلی کیلئے خود آگاہی کے عمل کو کلیدی حیثیت حاصل ہے کیونکہ خود آگاہی کے عمل میں ہم اپنے رویے کا تجزیہ کرتے ہیں اور یہ جاننے کے قابل ہوتے ہیں کہ ہمارے رویے اور دوسروں کیلئے کتنا فائدہ مند یا نقصان دہ ہیں اور نتیجتاََ ہم اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
                خود آگاہی کی اہمیت یوں تو تمام شعبوں اور محکموں میں کام کرنے والے افراد کیلئے ہے لیکن معاشرے کے کچھ مخصوص محکمے جن کا کام براہ راست عوام کے ساتھ رابطے میں رہنا ہے اور جن کے کام سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہ ہورہی ہوتی ہیں۔ ان کیلئے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور ان میں سے پولیس بھی ایک ایسا ہی ادارہ ہے۔ لہٰذا ایک خود آگاہ، پُر اعتماد اور اپنی خوبیوں، خامیوں سے واقف افراد پر مشتمل پولیس فورس کی پہچان ہی ایک مؤثر ذمہ دار اور عوام کیلئے قابل اعتماد ادارے کے طور پر ہوتی ہے۔





انسداد جرائم

انسداد علاج سے بہتر ہے۔ ہر ایک پولیس افسر کو انسدادی اختیارات سے واقف ہونا چاہیے جو اسے قانون کے تحت عطا کیے گئے ہیں۔ یعنی ایکٹ پولیس 1861ء  قواعد پولیس 1934ء اور مجموعہ ضافطہ فوجداری1898ء میں پولیس کو جو اختیارات دی گئی ہیں۔
اس سلسلے میں ہر ایک پولیس افسر کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ عام لوگوں کے امن کے متعلق خبریں دریافت کرکے پہنچائے اور جرائم کا اور عام لوگوں کو تکلیف دینے والے امور کے کئے جانے کا انسداد کرے اور مجرم کا سراغ لگا کر اسے سزا دلائے اور ایسے تمام لوگوں کو گرفتار کر ے جن کو گرفتار کرنے کی قانوناََ اسے اجزت ہو اور جن کی گرفتاری کی کافی وجوہات موجود ہوں۔
                مجموعہ ضابطہ فوجداری 1898ء میں کسی پولیس افسر کے انسدادی اختیارات اور تدابیر بیان کی گئی ہیں۔ اسکے علاوہ دفعہ 151 ضابطہ فوجداری میں بتایا گیا ہے۔  جس پولیس افسر کو یہ علم ہو کہ کوئی شخص کسی قابل دست اندازی جرم کے ارتکاب کا قصد کرہا ہے اسے اختیار ہے کہ مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر اور بلا وارنٹ اس شخص کو گرتار کرلے جو اس طرح قصد کررہا ہو اگر ویسے افسر کو یہ معلوم ہوتا ہو کہ اس جرم کے ارتکاب کا انسداد اور طرح نہیں ہوسکتا۔






DFC
(Detective Foot Constable)

DFC انگریزی زبان کا لفظ ہے جو Detictive Foot Constable کا مخفف ہے جس کا معنی سراغ رساں یا کھوجی کنسٹیبل ہے۔
DFC کی فرائض:۔
                i۔  DFC  اپنے تھانہ جس میں ڈیوٹی پر تعینات ہوں سے واقف ہوگا۔
                ii۔  DFC  حدود تھانہ میں قائم تمام حساس مقامات، سرکاری املاک عمارات، دفاتر، سکول، بینکوں، نادرا دفتروں، ہسپتال وجیرہ تمام مقامات کہاں واقع ہیں سے با خبر ہوگا اور ان تمام مقامات کی فون نمبرات اپنی ڈائری میں درج کرے گا تاکہ کسی بھی وقت ضرورت پڑنے پر ان سے رابطہ قائم کیا جاسکے یا ایمر جنسی کی صورت پہنچ سکے۔
                iii۔  حدود تھانہ میں موجود بدمعاشان، مفروران، منشیات فروش اور ہر قسم کی جرائم پیشہ افراد سے باخبر رہے گا۔
                vi۔  سمن اور ورنٹ کی تعمیل حسب ضابطہ اور بر وقت کریگا۔


تفتیش میں حائل رکاوٹیں /خامیاں
دور گزرنے کے ساتھ ساتھ پولیس کو ڈیوٹی کی انجام دہی میں نئے چیلنجوں کا سامنا پڑتا ہے۔ جیسے آج کل کی دور میں سوشل میڈیا سے ہر کوئی واقف ہے اور اگر کوئی واقعہ رونما ہوجائے تو   سارے دنیا میں یہ خبر سیکنڈوں کے حساب میں پھیل کر ایک ایشو بن جاتی ہے۔ اور جب بھی کوئی وحشیانہ واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو پولیس حسب ضابطہ قانونی کاروائی کرتے ہیں اور وقوعہ میں ملوث تمام ملزمان کو ٹریس کرکے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لاتے ہیں۔ ان مراحل کو پورا ہونے میں کیس کی نوعیت اور ملزمان تک رسائی کی امکانات پر منحصر ہوتاہے۔ لیکن اکثر ایسے واقعات رونما ہونے کی صورت میں ان واقعات کو سوشل میڈیا پر سیکنڈوں کی حساب سے وائرل ہوجاتے ہیں اورعوام سوشل میڈیا پر پولیس کے خلاف ایک مہم چلاتے ہیں جس کے وجہ سے تفتیشی افسران پر عوام اور اعلی افسران کے طرف سے دباؤ بڑجاتے ہے اور پولیس کو تفتیش جاری رکھنے میں رکھاوٹ حائل ہوجاتی ہے جسکی وجہ سے تفتیشی افسر اپنے تفتیش چھوڑ کر اعلی افسران اور عوام کی اشاروں پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ باز اوقات پولیس واردات میں ملوث ملزمان کو شواہد سمیت گرفتار کرنے کی موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں اور اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ ملزمان شواہد کو ضائع کرپائے۔کیونکہ ایسے واردات کے تفتیش کے دوران کافی سارے دیگر انکشافات سے پردہ اٹھایا جاتا ہے افسران کی دباؤ اور عوام کی مطالبوں کیوجہ سے تفتیشی افسر اپنی تفتیش کو صحیح طرح پائے تکمیل تک نہیں پہنچانے کی بغیر ملزمان میں سے اگر کوئی بھی دستیاب ہو تو انہیں گرفتار کرکے عدالت کو پیش کرنے پر واردات میں ملوث دیگر اہم ملزمان کو فائدہ پہنچ کر مقدمہ ایک ناکام سمت کے طرف گامزن ہوجاتی ہے۔ کیونکہ عوام سمجھتے ہیں کہ ملزم کو سزا ایک قیاص یا سوشل میڈیا پر ان کی خلاف کچھ ناکافی حقائق پر ہوتی ہے جوکہ سراسر غلط ہے۔ کیونکہ عدالت شواہد پر یقین رکھتی ہے نہ کی سنی سنائی باتوں پر جن کی وجہ سے ملزم /ملزمان کو فائدہ پہنچ کر مقدمہ میں بری ہوجاتے ہیں۔
                اسی طرح پولیس کو دوران تفتیش بہت سارے دیگر چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے جب کوئی واردات ہوتے ہیں اور واردات میں ملوث ملزمان روپوش ہوکر اپنے جائز گرفتاری دینے سے گریز کرتے کرتے ہیں ایسے صورت میں ان کے زیر استعمال موبائل سم کی لوکیشن اگر دستیاب ہو تو منٹوں میں پولیس ملزمان کو گرفتار کرسکتے ہیں۔ چونکہ یہ سسٹم نہ ہونے کی برابر ہے اور ملزمان کی موبائیل کا ڈیٹا(CDR) کو حاصل کرنے میں بھی کم سے کم دو دن لگ جاتے ہیں جوگہ دوران تفتیش ایک لمبا وقت ہے۔ اور اگر کھبی کسی موبائل نمبر کے (Ownership) ملکیت کو معلوم کرنے کی ضرورت پڑجائے تو پولیس کیساتھ ایسا کوئی سسٹم نہیں کے وہ منٹوں کے حساب میں کسی موبائل نمبر کی تفصیل حاصل کریں اور اکثر موبائیل کمپنیوں کےFranchise ہر جگہ دستیاب نہیں ہوتے اور اگر دستیاب بھی ہوں تو وہ پولیس کویہ کہہ کر ڈیٹا فراہم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ ہمیں کمپنی کی طرف سے اجازت نہیں ہے کہ کسی کو ڈیٹا فراہم کریں۔
                ایک تفتیشی افسر رہ کر میں یہ کہونگا کہ کسی تفتیشی افسر کو دوران تفتیش 20% وسائل بھی مہیا نہیں ہوتے اور حکومت وقت اور عوام پاکستانی پولیس سے ترقیافتہ پولیس کی طرز کاروائی کی امید کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر ملزما ن روپوش ہوکر دور دراز علاقوں کو ترک سکونت کرے توان کو گرفتار کرنے کیلئے پولیس پارٹی کاروائی کو رسائی کیلئے وسائل تقریباََ ایک فیصد 1% بھی نہیں ہوتے کیونکہ تجربات سے ثابت ہے کہ محکمہ اور حکومت پولیس کو ایسے کاروائی کرنے کیلئے سرکاری گاڑی، ایندھن کا خرچہ یا دیگر خرچہ دینے سے مکمل طور پر انکاری ہے۔تو ایسے صورت میں یہ پولیس افسر کی بس کی بات نہیں کے ایک ملزم کو پکڑنے کیلئے کوئی پولیس افسر اپنے جیب سے 50ہزار روپے لگا کر اپنے دو مہینے کے تنخواہ سرکاری ڈیوٹی پر خرچ کرے۔
                اسی طرح جب کسی سرقہ شدہ گاڑی یا موٹر سائیکل کو پولیس برآمد کرکے اس پر مقدمہ درج کرتے ہیں تو دوران تفتیش مذکورہ گاڑی کو کئی بار لیبارٹری(FSL) کو لے جانا پڑتا ہے جس کو پہنچانے کیلئے پولیس افسر اپنے جیب سے پیسے لگاتے ہیں اور سرکار سے تفتیشی افسر کو 1% سہولت بھی مہیا نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات گاڑی ناقابل استعمال حالت میں ہونے کی صورت میں پولیس افسر گاڑی کو دوسرے گاڑی کیذریعے FSL پہنچاتے ہیں جس کیوجہ سے پولیس افسر انتہائی زیادہ خرچ کو برداشت کرتا ہے۔
                عام طور پر عدالتوں کی جانب سے مقدموں کی سماعت کی دوران لمبی عرصہ اور تاریخ پہ تاریخ کیوجہ سے کوئی بھی عام شہری پولیس افسر کو واردات کے متعلق معلوما ت فراہم کرنے سے کتراتے ہیں اور اسے ڈر کے وجہ سے عوام پولیس کیساتھ کوئی تعاون نہیں کرتے۔
                اسی طرح پولیس کو تفتیش کیلئے ایسے کوئی جدید آلات اور سہولیات فراہم نہیں ہیں جن کو زیرکار لاتے ہوئے پولیس افسر تفتیش کو اچھے طرح پائے تکمیل تک پہنچائے۔ یہاں تک پولیس افسر کو سرکاری کام کرنے کیلئے کافی مقدار میں سٹیشنری بھی دستیاب نہیں ہوتی اور  زیادہ تر کاغذ وغیرہ پولیس افسر اپنی مدد آپ خرید کر استعمال کرتے ہیں۔اورہمیشہ پولیس افسر کاغذات کی فوٹو کافی جن پر ہزاروں روپے خرچ ہوتے ہیں اپنے جیب سے خرچ کرتے ہیں۔
                چونکہ تفتیشی افسر کودوران تفتیش کافی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں ایک بڑی رکاوٹ سیاسی مداخلت بھی ہے۔ اکثر اوقات کسی واردات رونما ہونے کی صورت میں دونوں فریقین مختلف پارٹیوں کیساتھ تعلق رکھتے ہیں اور ایک فریق کے پارٹی کی سیاست دان پولیس پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرکے اس فریق کے حق میں پولیس پرطرح طرح دباؤ دالتے ہیں تو دوسرے فریق کے ساتھ دوسرے پارٹی کی سیاسی اشخاص پورے زور لگا کر سیاست چمکانے کے خاطر حقائق کو نظر انداز کرکے پولیس پر اثر انداز ہونے کے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔






جدید تفتیش
Modern Investigation

پولیس کی اصطلاح میں تفتیش سے مراد    ”کسی بھی مقدمے میں ملوث ملزمان کے نشاندہی، شواہد کو اکھٹا کرنا اور مقدمے کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام حقائق کو منظر عام پر لاکر عدالت کے سامنے پیش کرنا تفتیش کہلاتا ہے۔
کسی بھی مقدمے کی کامیابی کا انحصار شفاف اور بہترین تفتیش پر ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی مقدمے میں ملزم کے خلاف فیصلہ کرنے کیلئے عدالت کو ٹھوس شواہد اور حقائق کا منظر عام پرہونا ضروری ہوتا ہے۔لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ مقدمے میں ملوث تمام ملزمان کو قصور وار پائے جائے اور سزا یافتہ ہو کیونکہ بسا اوقات ملزم پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور حقائق پر مبنی نہیں ہوتیں۔ لہٰذا پولیس کی بہترین اورحسب ضابطہ تفتیش کرنے پر قصور وار ملزمان کو عدالت کیذریعے سزاوار بے گناہ ملزمان کی نشاندہی ہو کر عدالت کیذریعے با عزت بری کیا جائے۔
                وقت کی گزرنے کیساتھ ساتھ جرائم پیشہ اشخاص مختلف قسم کی حربے، مختلف جدید قسم کی آلات اور تکنیکس استعمال کرتے ہیں۔  اس لئے تمام پولیس اہلکاران کو جدید طریقے سے تفتیش سر انجام دینا چاہیے۔ مثلاََ کسی مقدمے کی تفتیش کرتے وقت اس بات کی مدنظر رکھیں جائیں کہ ملزم نے جرائم کے ارتکاب میں کس قسم کی آلات اور کس قسم کی حربے استعمال کیے ہیں یعنی جدید دور میں جرائم پیشہ اشخاص انٹرنیٹ، موبائیل فون،کمپیوٹر اور کمپیوٹرائز آلات استعمال کرسکتے ہیں جس کی نشاندہی کیلئے پولیس افسر کو ان تمام جدید ٹیکنالوجی سے باخبر رہنا چاہیے۔
                جرائم پیشہ لوگ اکثر جرم کے ارتکاب میں دوسرے جرائم پیشہ اشخاص، یا عام اشخاص سے مدد لیتے ہیں جس میں وہ موبائل فون کایا دوسرے آلات کا استعمال کرتے ہیں اس سلسلے میں پولیس افسر کو چاہئے کہ مشتبہ گان اور مظلوم کی فون کا ریکارڈ حاصل کرکے مشتبہ گان کو انٹاروگیٹ کرکے مقدمے کے ساتھ تعلق رکھنی کی حقائق منظر عام پر لائے جائے اس سسٹم کو  Call Data Record (CDR)  کہا جاتا ہے۔
                سب سے پہلے اگر جائے وقوعہ ہو تواس کو عوام الناس سے محفوظ کرنے کیلئے جائے وقوعہ کو DON'T TOUCH  پٹی کیذریعے ارد گردگھیر لینا چاہیے تاکہ کوئی مواد یا شہادت ضائع نہ ہوجائے اور
جائے وقوعہ سے ایسے مواد حاصل کرنا چاہیے یعنی خون،  خون آلود اشیاء،  تیز دار آلہ،  خول، پستول،بندوق
رائفل، موبائیل فون اور ایسے اشیاء کو جرائم پیشہ لوگوں نے چھوا ہو ایسے مواد کو نہایت احتیاط سے نرم رومال کیذریعے چھو کر پارسل میں بند کرکے فنگر پرنٹ کیلئے لیبارٹری کو بھیجنا چاہیے تاکہ فنگر فرنٹ کیذریعے ملزمان کی نشاندہی کیجائے۔
                خون اور خون آلود اشیاء، دوسرے مائع اشیاء کو احتیاط کیساتھ اکھٹا کرکے پارسل تیار کرکے لیبارٹری کو بھیجنا چاہیے۔اور تفتیشی افسر کو کاغذی کارروائی اور شواہد اکھٹا کرنے میں نہایت احتیاط اور اچھی کارکردگی کرنے کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ کسی ایسے غلطی کیوجہ سے اصل ملزم کوسزا سے بچنے کا موقع نہ ملے اورکہیں بے گناہ اشخاص کو سزا نہ ہوجائیں۔

email:   habibzeb@gmail.com


0 Comments:

Post a Comment